لاہور (ویب ڈیسک): پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز ایک بار پھر سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہیں۔ اس بار ان کے مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان کے ساتھ سفارتی مصافحے کی تصویر نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
تصویر کی وائرل ہونے کی کہانی
متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان حالیہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھے، جہاں انہوں نے مختلف اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران مریم نواز کے ساتھ ان کی ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں دونوں کو مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تصویر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر مختلف آرا اور تبصرے شروع ہو گئے۔ کچھ صارفین نے اس ملاقات کو ایک سفارتی عمل قرار دیا، جبکہ دیگر نے مریم نواز کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
تنقید کا پہلو
سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے مریم نواز کی اس تصویر پر ان کے ماضی کے بیانات اور روایات کی طرف توجہ دلائی۔
طارق متین نامی ایک صارف نے لکھا،
“جب آپ اہم عہدے پر ہوتے ہیں تو مرد و خواتین دنیا بھر میں مصافحہ کرتے ہیں، اور میں اسے دنیاوی اعتبار سے قابل قبول بھی مانتا ہوں۔ مگر مریم نواز صاحبہ وہی ہیں جنہیں نیب کی پیشیوں میں محرم اور نامحرم کے مسائل یاد آتے تھے۔”
فاطمہ نامی ایک خاتون صارف نے مریم نواز کی پرانی ویڈیو شیئر کی، جس میں وہ کہتی نظر آ رہی تھیں:
“میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، یہ چیز میرے خون میں شامل ہے، دین سے محبت اور اس کے احکامات کی پابندی میری تربیت کا حصہ ہے۔”
احمد حسین بوبک نے عمران ریاض خان کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:
“مریم نواز نے بادشاہ کے ساتھ ‘ہینڈ ہگ’ کیا۔ یہ وہی ہیں جو نیب میں پیشی کے دوران کہتی تھیں کہ وہاں نامحرم موجود ہیں۔ لیکن اپنی مرضی سے لبرل بنتی ہیں، جہاں فائدہ ہو۔”
مزاحیہ تبصرے اور طنزیہ ویڈیوز
بعض صارفین نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے اس تصویر پر دلچسپ ویڈیوز اور میمز بھی شیئر کیں۔
ناظم حسین نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں کچھ عرب افراد کو “اوووووووو” کی آوازیں نکالتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو
کے کیپشن میں انہوں نے لکھا:
“مریم نواز کی تصویر دیکھ کر عرب لوگوں کا احتجاج۔”
یہی ویڈیو سمیع علی نامی صارف نے ٹک ٹاک پر بھی اپلوڈ کی، جس پر لوگوں نے مزاحیہ تبصرے کیے۔
دفاع میں آنے والی آرا
دوسری جانب کچھ افراد نے مریم نواز کے اس عمل کا دفاع بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک رسمی سفارتی عمل تھا، اور اسے ثقافتی یا مذہبی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
سفارتی عمل یا دوہرا معیار؟
سوشل میڈیا پر جاری اس بحث نے ایک بار پھر پاکستانی سیاستدانوں کے رویے اور بیانات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کئی صارفین نے مریم نواز کے ماضی کے بیانات اور موجودہ عمل کو دوہرے معیار سے تعبیر کیا، جبکہ دیگر نے اس بحث کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی سیاست اور سفارتکاری میں ایسے واقعات معمول کی بات ہیں۔
اس تنازع کے اثرات
یہ واقعہ نہ صرف مریم نواز کے سیاسی مخالفین کے لیے ایک موقع بن گیا بلکہ سوشل میڈیا پر ایک بڑی تقسیم کو بھی جنم دے گیا۔ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو مذہبی روایات کی خلاف ورزی پر ناراض ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ افراد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک رسمی اور سفارتی ملاقات تھی جسے غیر ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے۔
اختتام
مریم نواز کی شخصیت اور ان کے فیصلے ہمیشہ سے پاکستانی سیاست میں بحث کا مرکز رہے ہیں، اور یہ واقعہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس تنازع نے جہاں سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کو جنم دیا، وہیں یہ سوال بھی کھڑا کیا کہ سیاستدانوں کے لیے سفارتی تقاضے اور روایات کا احترام کس حد تک اہم ہے، اور آیا ان کے ذاتی بیانات کو اس نظر سے جانچا جانا چاہیے یا نہیں۔
یہ بحث شاید جلد ختم نہ ہو، کیونکہ پاکستان میں سیاست اور مذہب کے مابین تعلق ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔