
تاریخی پس منظر سے لے کر موجودہ حالات تک — افغان شہریوں کے خلاف کراچی میں جاری گرینڈ آپریشن نے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی، سوال یہ ہے کہ ان گرفتار افراد اور خالی کرائی جانے والی بستیوں کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟
🇵🇰 تاریخی پس منظر: افغان مہاجرین کا پاکستان آمد کا سفر
1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں افغان شہری پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اُس وقت پاکستان نے انسانیت کے ناتے سرحدیں کھول دیں، اور لاکھوں افغان مہاجرین خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ (خصوصاً کراچی) میں آباد ہو گئے۔ اگلی کئی دہائیوں میں یہ لوگ یہاں کے بازاروں، ٹرانسپورٹ، ریڑھی بانوں اور تعمیراتی شعبے کا حصہ بن گئے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں — خصوصاً سہراب گوٹھ، نیو کراچی، حب ریور روڈ اور اطراف میں افغان بستیوں نے جنم لیا۔ کئی جگہوں پر ان کی دوسری اور تیسری نسلیں پیدا ہوئیں، جنہوں نے مقامی طرزِ زندگی اختیار کر لی، مگر قانونی حیثیت واضح نہ ہونے کے باعث یہ ہمیشہ ایک “عارضی آبادی” کے طور پر موجود رہے۔
🚨 موجودہ صورتحال: پاکستان و افغانستان تعلقات میں تناؤ

حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔ سرحد پار سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافے اور بعض تنظیموں کی سرگرمیوں کے باعث پاکستانی حکومت نے افغان شہریوں پر کڑی نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔
کراچی میں بھی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ پولیس، رینجرز اور حساس اداروں نے مشترکہ گرینڈ آپریشن شروع کر دیا ہے، جس کا ہدف غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ہیں۔ نیو کراچی، سہراب گوٹھ، اور اطراف کے علاقوں میں افغان بستیوں کو خالی کرایا جا رہا ہے، متعدد افراد کو حراست میں لے کر ان کے کاروبار بند کیے جا رہے ہیں۔
🏚 بستیوں کی صفائی اور گرفتاریوں کا سلسلہ
شہری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تیزی سے ان افغان بستیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں “غیر قانونی قبضے” یا “غیر رجسٹرڈ آبادیاں” کہا جا رہا ہے۔ ریڑھی بان، ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے افراد اور چھوٹے کاروبار کرنے والے افغان شہریوں کو بھی پکڑا جا رہا ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں ان بستیوں کو بلڈوزر کے ذریعے خالی کرایا جا رہا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق “تاندو” اور اطراف کے افغان گروپس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں کئی دہائیوں سے ان کا نیٹ ورک موجود تھا۔
✈️ اگلا مرحلہ: ان افغان شہریوں کے ساتھ کیا ہوگا؟

یہ وہ سوال ہے جو آج ہر شہری کے ذہن میں گردش کر رہا ہے: “اب ان افغان شہریوں کو کہاں بھیجا جائے گا؟”
حکومتی ذرائع کے مطابق، جن افغان باشندوں کے پاس کوئی قانونی شناخت یا رجسٹریشن نہیں ہے، انہیں مرحلہ وار ملک بدر کیا جائے گا۔ کئی مقامات پر ڈی پورٹیشن سنٹرز (Deportation Centers) قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں گرفتار افغان شہریوں کو عارضی طور پر رکھا جا رہا ہے۔
ان شہریوں کو بعد ازاں سرحد کے قریب علاقوں میں منتقل کر کے افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ کچھ افراد جو پاکستان میں طویل عرصے سے مقیم ہیں اور ان کے پاس افغان کارڈ یا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کارڈ موجود ہیں، ان کے معاملات الگ طریقے سے نمٹائے جائیں گے۔
🧭 بین الاقوامی ردِعمل اور انسانی حقوق کا معاملہ
ان کارروائیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور کچھ بین الاقوامی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی افغان شہری دہائیوں سے پاکستان میں پیدا اور پلے بڑھے ہیں، اور انہیں بغیر مناسب قانونی طریقہ کار کے زبردستی ملک بدر کرنا انسانی المیہ ہو سکتا ہے۔
تاہم دوسری طرف پاکستان میں عوامی سطح پر ایک بڑی تعداد اس اقدام کی حمایت کر رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی افراد کی موجودگی نے نہ صرف وسائل پر دباؤ ڈالا ہے بلکہ امن و امان کے مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔