
واقعہ سپر ہائی وے پر پیش آیا موٹر سائیکل چھیننے کی کمپلین درج ، دو دن گزرنے کے بعد بھی پولیس خاموش! شہری انصاف کا منتظر
کراچی میں امنِ عامہ کا بحران: غریب شہری بخت زیب خان مشوانی کی موٹر سائیکل گن پوائنٹ پر چھین لی گئی
کراچی — شہر کے متعدد رہائشی اور صنعتی علاقوں میں روز بروز بڑھتی ہوئی لوٹ مار اور اسنچنگ نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں گلشنِ معمار صنعتی ایریا سے روزنامہ جسارت کے کارکن بخت زیب خان مشوانی کی موٹر سائیکل (CD-70 نمبر 5638-KTD) مسلح ملزمان نے گن پوائنٹ پر چھین لی، واقعہ کا پرچہ سپر ہائی وے سائٹ تھانے میں درج کرایا گیا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر شہر کے کمزور طبقوں کی حفاظت کے بارے میں سوالات کو جنم دیا۔
شہر کے مختلف علاقوں بشمول گلشنِ معمار، کورنگی، سعید آباد، لیاقت آباد اور اورنگی ٹاؤن میں گزشتہ ماہوں میں موٹر سائیکل اور موبائل فون کی چوری، اسنچنگ اور عوامی مقامات پر ڈکیتی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کی باقاعدہ رپورٹس اور ڈیٹا بھی شائع ہو چکا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر کر رہے ہیں بلکہ خاص طور پر کم آمدنی والے مزدور طبقے اور روزگار کے لیے دو پہیہ گاڑیوں پر انحصار کرنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔

مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ شہر کے کچھ مخصوص “ہاٹ اسپاٹ” علاقے جرائم کا گڑھ بن چکے ہیں جہاں ملزمان دن دہاڑے وارداتیں کرتے ہیں اور گواہان یا متاثرین کے سامنے پولیس کی بروقت یا مؤثر کارروائی کا فقدان واضح رہتا ہے۔ شہریوں کی طرف سے بارہا شکایت کے باوجود بعض مقامات پر تیز رفتار گشت اور سیکیورٹی کی کمی نے ڈکیتوں کو بے خوف بنایا ہوا ہے۔ اس کے برعکس پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایک جانب سنگین جرائم میں کمی دیکھی گئی ہے اور مختلف آپریشنز بھی کیے جا رہے ہیں، مگر عوامی تاثرات ان دعوؤں سے میل نہیں کھاتے۔
بخت زیب خان مشوانی کے مطابق وہ اپنے معمول کے مطابق گلشن معمار انڈسٹریل ایریا سے موٹر سائیکل پر جا رہے تھے جب اچانک دو مسلح افراد نے انہیں روک کر گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھین لی اور تیزی سے فرار ہو گئے۔ متاثرہ نے فوری طور پر سپر ہائی وے سائٹ تھانہ میں رپورٹ درج کرائی، مگر دو دن گزرنے کے باوجود موٹر سائیکل برآمد نہ ہو سکی۔ متاثرہ خاندان بنیادی طور پر مزدوری و روزگار پر منحصر ہے، اور یہ موٹر سائیکل ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھی، جس کے چھن جانے سے اُن کے روزمرہ کے اخراجات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ (موٹر سائیکل نمبر: 5638-KTD)۔
ماہرینِ سماجیات اور حقوقِ انسانی کارکنان کا کہنا ہے کہ جب تک شہروں میں کم آمدنی والے افراد کی حفاظت کو ترجیح نہیں دی جاتی، غربت اور جرائم ایک دائرے کی مانند ایک دوسرے کو تقویت دیتے رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مقامی پولیس اور انتظامیہ کو کمیونٹی پٖولنگ، سی سی ٹی وی نیٹ ورک کی توسیع اور حساس علاقوں میں مستقل گشت جیسے اقدامات پر فوری توجہ دینی چاہیے۔

شہر کے تاجر، مقامی باشندے اور صحافی مشترکہ طور پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ واقعے کی شفاف تحقیقات کر کے مجرموں کی گرفتاری یقینی بنائیں اور متاثرہ خاندان کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے۔ علاوہ ازیں، کمیونٹی لیڈرز نے اس واقعے کو ایک وارننگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر جلد اقدامات نہ کیے گئے تو شہری خود حفاظتی اقدامات کی طرف مائل ہو کر قانونی دائرہ کار سے باہر جا سکتے ہیں — جو کہ معاشرے کے لیے مزید پیچیدہ نتائج لا سکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے مقامی پولیس، ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندگان کو مشترکہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی تاکہ غریب شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے اور روزگار کے چھین جانے جیسے واقعات کا مکمل خاتمہ ممکن ہو۔ بخت زیب خان مشوانی کے معاملے کی طرح ہر ایک کیس کا فوری ازالہ اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنا اس شہر کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔