اہور میں پریس کانفرنس کے بعد پنجاب نے تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) کے خلاف سخت کارروائیوں کی طرف قدم بڑھا دیا۔بینک اکاؤنٹس، جیو ٹَیگنگ اور ممکنہ پابندی کا خلاصہ وفاق کو بھیج دیا گیا۔
پنجاب کے وزیرِ اطلاعات نے واضح کیا ہے کہ حالیہ پرتشدد احتجاج اور سڑکوں پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت نے TLP کے خلاف جامع تحقیقات اور سخت احتیاطی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی کابینہ نے TLP پر پابندی کی سفارش پر منظوری دے کر سمری وفاق کو بھیج دی ہے — اب حتمی فیصلہ مرکز کرے گا۔
حکومت نے TLP کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے شعبے کے تحت مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ سینکڑوں معاونین اور کارکنوں کی نشاندہی اور گرفتاریوں کا عمل جاری ہے — اطلاعات کے مطابق سیکڑہ سے زائد افراد کی شناخت اور گرفتاری کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

مزید برآں، سیکورٹی ایجنسیاں اور پولیس نے پارٹی کے رہنماؤں اور اثاثوں کی تفتیش میں تیزی لائی ہے — ذرائع کے مطابق گھروں سے قیمتی زیورات، غیر ملکی کرنسی اور متعدد بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی بھی ہوئی ہے، جس سے چندہ جمع کرنے کے غیر شفاف طریقوں پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی بیان کے مطابق ایسے شواہد کے پیشِ نظر کارروائیاں تیز کی جا رہی ہیں۔
ایک جامع قدم کے طور پر محکمہ اوقاف اور متعلقہ اداروں نے صوبے بھر کے مدارس اور مساجد کی نگرانی اور انتظام نو کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں — ابتدائی طور پر 223 مدارس کی جیو ٹَیگنگ مکمل کر لی گئی ہے تاکہ ان اداروں کی ملکیت، مالی بہاؤ اور سرگرمیوں کا شفاف ریکارڈ رکھا جا سکے۔ بعض حساس کیسز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اضافی رپورٹس کی بنا پر مخصوص مدارس کو بند یا دیگر ذمہ داران کے حوالے کرنے کی تجویز دے سکتے ہیں۔
حکومت کے موقف کے مطابق مساجد اذان اور نماز کے لیے کھلی رہیں گی، مگر لاؤڈ اسپیکر قانون اور مذہبی اداروں کے غلط استعمال پر کسی صورت رعایت نہیں برتی جائے گی — لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا جائے گا۔ اس فیصلے کا مقصد مذہب کے نام پر عوام کو بھڑکانے کی کوششوں کو ناکام بنانا بتایا گیا ہے۔
سرکاری اعلانات میں والدین کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے بچائیں — حکومتی نمائندوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں اور نوجوان آسانی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے والدین اور مقامی کمیونٹی کا تعاون ضروری قرار دیا گیا ہے۔

یہ اقدام سیاسی اور سماجی طور پر سنگین نتائج رکھتا ہے: اگر وفاقی سطح پر TLP پر پابندی آتی ہے تو جماعت کے سیاسی، سماجی اور معاشی اثرات کا جائزہ لینا ہوگا — اس سے قانون، پولیس اور مذہبی قائدین کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے، جبکہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جائیں گی۔ عالمی اور مقامی میڈیا نے بھی اس پیش رفت کو قابلِ توجہ قرار دیا ہے۔
خلاصہ: پنجاب حکومت نے واضح موقف اپنایا ہے — طاقت کے زور پر عوامی امن بگاڑنے والے عناصر کے خلاف کوئی رعایت نہیں، مالی راستے بند کیے جائیں گے، مدارس اور مساجد کی نگرانی شفاف ہوگی، اور آخرکار وفاقی سطح پر TLP کے مستقبل کا فیصلہ مرکز کرے گا۔ عوام کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خبروں کی تصدیق شدہ خبروں پر ہی اعتماد کریں اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی اطلاع فوراً متعلقہ اداروں کو دیں۔
