![](https://qaumkiawaz.pk/wp-content/uploads/2025/02/elly-johnson-7sff-qvfpx4-unsplash1738493496-0-600x450-1.webp)
https://img.express.pk/media/images/elly-johnson-7sff-qvfpx4-unsplash1738493496-0/elly-johnson-7sff-qvfpx4-unsplash1738493496-0-600x450.webp
عام طور پر لوگ سونگھنے کی حس کو بصارت، سماعت اور دیگر جسمانی خصوصیات کے مقابلے میں کم اہمیت دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ حس کئی حوالوں سے نہایت اہم ہے۔
تحقیقی جائزہ
محققین کے ایک سروے میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ نصف سے زائد خواتین نے بتایا کہ وہ اپنے بال رکھنے کو سونگھنے کی حس سے زیادہ ترجیح دیں گی۔ تاہم، سونگھنے کی حس وہ پہلی حسی قوتوں میں سے ایک ہے جو دماغی صحت، یادداشت اور دیگر ذہنی افعال سے جڑی ہوئی ہے۔
یادداشت اور جذبات سے براہ راست تعلق
یہ حس نہ صرف یادداشت بلکہ جذبات کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ اس بات کی نشاندہی سب سے پہلے امریکی ماہر نفسیات ڈونلڈ لیرڈ نے 1935 میں کی تھی۔
سونگھنے کا عمل کیسے کام کرتا ہے؟
کسی بھی خوشبو کو سب سے پہلے ناک کے اندر موجود خصوصی عصبی خلیات محسوس کرتے ہیں۔ یہ خلیے خوشبو کو دماغ کے سونگھنے والے مرکز (Olfactory Bulb) تک منتقل کرتے ہیں۔
یہاں سے یہ خلیے دماغ کے لمبک نظام (Limbic System) سے جُڑ جاتے ہیں، جو جذبات اور یادداشت کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بصارت اور سماعت کا فرق
سونگھنے کی حس کے برعکس، دیگر حواس جیسے بصارت اور سماعت کا لمبک نظام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خوشبوئیں اکثر ہمیں ماضی کی یادوں میں لے جاتی ہیں اور گہرے جذبات ابھارتی ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سونگھنے کی حس نہ صرف ہماری روزمرہ کی زندگی بلکہ ذہنی صحت اور یادداشت کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔