
پاکستان کے جنوب میں واقع صحرائی علاقے تھرپارکر کی خاموش فضاؤں میں ایک بزرگ شخصیت عبدالحکیم بلوچ گزشتہ پچاس برسوں سے ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو آج کے دور میں نہ صرف نایاب ہے بلکہ حیرت انگیز بھی۔ جب دنیا اسمارٹ فونز، انٹرنیٹ، اے سی، فریج اور دیگر سہولتوں کی طرف بڑھ رہی ہے، عبدالحکیم ان سب سے لاتعلق، سادہ مگر پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں — وہ بھی بغیر بجلی کے۔
یہ بات بظاہر ناقابلِ یقین لگتی ہے کہ کوئی شخص اتنی طویل مدت تک بجلی جیسی بنیادی سہولت کے بغیر اپنی زندگی بسر کر رہا ہو، مگر عبدالحکیم کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر چاہے تو قدرتی وسائل سے بھی اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
عبدالحکیم کا تعلق تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں “چوٹیاریو” سے ہے۔ ان کا گھر کچے گارے، لکڑی اور مٹی سے بنا ہوا ہے، جو قدرتی طور پر گرمیاں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں نسبتاً گرم رہتا ہے۔
بچپن اور زندگی کا طرز
عبدالحکیم کے والد ایک کسان تھے۔ انہوں نے بچپن سے ہی قناعت، محنت اور سادگی کے اصولوں پر زندگی گزارنا سیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بجلی کا آنا ان کے گاؤں کے قریب کے علاقوں تک محدود رہا، لیکن انہوں نے کبھی اس کی خواہش نہیں کی۔
“ہم نے چراغوں کی روشنی میں پڑھا، چاندنی راتوں میں سفر کیا اور سورج کی روشنی میں اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کی،” عبدالحکیم مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
بجلی نہ ہونے کے باوجود معمولاتِ زندگی
عبدالحکیم کا دن صبح فجر کے وقت شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنے چند بکریوں کو چراگاہ لے جاتے ہیں، اور دوپہر کو واپس آ کر اپنی بیوی کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں نہ پنکھا ہے، نہ فریج، نہ موبائل فون، نہ انٹرنیٹ۔ روشنی کے لیے دیسی مٹی کے چراغ استعمال کرتے ہیں جنہیں وہ سرسوں کے تیل سے جلاتے ہیں۔
گرمیوں میں وہ جھونپڑی کے مٹی والے فرش پر سو جاتے ہیں، جہاں ہوا کا قدرتی گزر ہوتا ہے، اور سردیوں میں اونٹ کی کھال سے بنی چادر اوڑھ کر سوتے ہیں۔
سادہ خوراک اور صحت مند زندگی
عبدالحکیم اور ان کی بیوی خود اگائے گئے باجرہ، گوار، مونگ اور دیگر دیسی اجناس کھاتے ہیں۔ وہ گوشت صرف عید یا کسی خاص موقع پر کھاتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی صحت شہر میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ نہ انہیں شوگر ہے، نہ بلڈ پریشر، اور نہ ہی کوئی بڑی بیماری۔ ان کا ماننا ہے کہ سادہ غذا، جسمانی مشقت اور صاف ہوا ہی ان کے تندرست رہنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
جدید دنیا کے بارے میں رائے
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی بجلی کی کمی محسوس ہوئی یا جدید دنیا کی سہولتوں کو اپنانے کا دل چاہا؟ تو عبدالحکیم کا جواب حیران کن تھا:
“بجلی ہو یا اے سی، انسان کو سکون نہیں دیتی۔ آج کل لوگ بجلی سے پنکھا چلا کر سوتے ہیں، پھر بھی نیند نہیں آتی۔ ہمارے پاس نہ بجلی ہے، نہ پنکھا، لیکن دل بھی پرسکون ہے اور نیند بھی گہری آتی ہے۔”
نوجوان نسل کے لیے پیغام
عبدالحکیم نوجوانوں کو قناعت، سادگی اور قدرتی زندگی کی طرف پلٹنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی ضرور کریں، مگر فطرت سے جڑے رہیں۔
“ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور اٹھائیں مگر اپنے اندر سادگی، صبر اور محنت کو زندہ رکھیں۔”
میڈیا کی توجہ
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ان کی تصویر اور ایک مختصر ویڈیو وائرل ہوئی جس میں عبدالحکیم اپنی بکریوں کے ساتھ بیٹھے کسی شخص کو دیسی چراغ جلا کر دکھا رہے تھے۔ لوگوں نے اس سادگی اور قناعت کو خوب سراہا۔ کئی ٹی وی چینلز نے ان کی زندگی پر رپورٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن انہوں نے کہا:
“مجھے شہرت کی ضرورت نہیں، میں جو زندگی گزار رہا ہوں وہی میری خوشی ہے۔”
سبق
عبدالحکیم بلوچ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ سبق کہ سہولیات زندگی کو آسان تو بنا سکتی ہیں، مگر دل کا سکون سادگی، قناعت اور قدرتی ماحول سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ان کی 50 سالہ بجلی کے بغیر گزرنے والی زندگی ایک مثال ہے کہ انسان اگر چاہے تو بغیر کسی بڑی ٹیکنالوجی کے بھی خوشحال، مطمئن اور بامقصد زندگی گزار سکتا ہے۔
یہ تحریر نہ صرف ایک بزرگ کے تجربات کی عکاس ہے بلکہ آج کے نوجوانوں کے لیے ایک آئینہ بھی ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی کہاں چھپی ہے۔