
مارچ اور سیاسی بے یقینی کے بعد سرمایہ کاروں نے ڈالر بانڈز کی خریداری کیوں بڑھا دی؟
TLP مارچ نے معیشت ہلا دی؟ ڈالر بانڈز کی قدر میں اچانک اضافہ، ماہرین حیران
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے۔ پاکستان تحریک لبیک (TLP) کے مارچ نے نہ صرف حکومتی اداروں کو پریشان کیا بلکہ مالی بازاروں میں بھی ہلچل مچادی۔ اس سیاسی عدم استحکام کے اثرات پاکستان کے معاشی نظام پر مرتب ہوئے ہیں، جس کی ایک واضح مثال ڈالر بانڈز کی قدر میں اچانک اضافہ ہے۔ ماہرین اس غیر معمولی صورتحال پر سر scratching کرتے ہوئے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر سرمایہ کاروں نے ڈالر بانڈز کی خریداری میں اتنی تیزی کیوں دکھائی؟
TLP مارچ کا اثر معیشت پر
پاکستان میں جب بھی سیاسی بے یقینی کا دور شروع ہوتا ہے، معیشت پر اس کے اثرات فوراً نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ TLP مارچ کا مقصد حکومت سے چند اہم مطالبات کا حصول تھا، اور اس مارچ کی وجہ سے ملک بھر میں ایک کشیدہ سیاسی ماحول پیدا ہو گیا۔ سیاسی استحکام کے فقدان اور حکومتی اداروں کے درمیان تناؤ نے عالمی سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا کی۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے ڈالر بانڈز کی خریداری کے رجحان میں اچانک اضافے کا باعث بھی بن گیا۔
سرمایہ کاروں کی ڈالر بانڈز میں دلچسپی کیوں بڑھ گئی؟
جب سیاست میں بے یقینی پیدا ہوتی ہے، تو سرمایہ کار زیادہ تر محفوظ سرمایہ کاری کی طرف رجوع کرتے ہیں، خاص طور پر وہ سرمایہ کاری جو امریکی ڈالر میں ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر امریکی ڈالر کو ایک محفوظ اور مستحکم کرنسی سمجھا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے ڈالر بانڈز کی خریداری میں اضافہ دیکھنے کو ملا، کیونکہ سرمایہ کاروں کو یقین تھا کہ ڈالر بانڈز میں سرمایہ کاری کرکے وہ روپے کی قدر میں کمی کے خطرے سے محفوظ رہیں گے۔
پاکستان کی معیشت میں سیاسی بحران کے دوران روپے کی قدر میں کمی کی توقعات تھیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے ڈالر بانڈز خریدنے کا رجحان بڑھا دیا۔ اس کے علاوہ، عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں نے بھی ان بانڈز کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ ایسے میں سرمایہ کاروں نے ڈالر بانڈز کو اپنی سرمایہ کاری کا محفوظ ترین طریقہ سمجھا۔

ڈالر بانڈز کی قدر میں اضافہ اور اس کے اثرات
پاکستان کے ڈالر بانڈز کی قدر میں اچانک اضافہ اس بات کا غماز ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ کار پاکستان کے معاشی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ وقت عالمی سطح پر سود کی شرح میں تبدیلی اور عالمی معاشی حالات میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کا ہے۔ جب سرمایہ کار یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کی مالیاتی صورتحال درست نہیں، تو وہ اپنے سرمایہ کو محفوظ بنانے کے لیے ڈالر بانڈز میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈالر بانڈز کی قدر میں اضافے سے نہ صرف پاکستان کی معیشت پر اثر پڑا بلکہ یہ بھی ظاہر ہوا کہ عالمی سرمایہ کار ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا بغور تجزیہ کر رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی ڈالر بانڈز کا زیادہ خریدنا، ملکی قرضوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے: یہ حکومت کو مزید قرضوں میں ڈوبو سکتا ہے۔
ماہرین کا تجزیہ
ماہرین کے مطابق، اس سیاسی ہلچل کے دوران سرمایہ کاروں کا ڈالر بانڈز کی طرف رجوع کرنا ایک فطری ردعمل ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا، “پاکستان کی معیشت میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور سیاسی بحران کے دوران، سرمایہ کاروں نے ڈالر بانڈز کو ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھا۔ لیکن یہ ایک عارضی حل ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر ملک کے معاشی حالات مزید بگڑتے ہیں تو ڈالر بانڈز کا فائدہ ختم ہو جائے گا۔”
نتیجہ
TLP مارچ نے پاکستان کی معیشت کو ایک اور امتحان میں ڈال دیا ہے، اور اس کے اثرات عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں واضح ہیں۔ ڈالر بانڈز کی قدر میں اضافہ ایک طرف سرمایہ کاروں کے تحفظ کا ذریعہ بن رہا ہے، تو دوسری طرف ملک کے قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف عارضی سرمایہ کاری کا موقع ہو سکتا ہے، اور انہیں مستقبل کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کرنا ہوں گے۔