اسکول انتظامیہ نے استاد کو برخاست تو کر دیا، مگر والدین انصاف کے خواهان — کیا قانون بچوں کو سکول میں تحفظ دے پائے گا؟
راولپنڈی (تحصیل کلر سیداں) — ایک معمولی سی غلطی، ایک سبق یاد نہ ہونا اور نتیجہ ایسا ہوا کہ ایک کم عمر طالب علم کی معصومیت پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ نجی اسکول میں پیش آنے والے واقعے میں پانچویں جماعت کے ایک بچے کو اس کے استاد نے سبق یاد نہ ہونے کے الزام میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں بچے کے جسم پر واضح نشان اور نیل پڑ گئے۔ اسکرین گریب میں دکھائی گئی حالت نے والدین، علاقے کے رہائشیوں اور سماجی حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔
متاثرہ بچے کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا محض یہ بتانے پر کہ اسے سبق یاد نہیں رہا، استاد کے غصے کا شکار ہوا۔ اسکول میں استعمال ہونے والے بدلے کے انداز نے سوال کھڑے کر دیے کہ کیا استاد بچوں کی تربیت میں تشدد کو سزا سمجھتے ہیں؟ والدین نے وزیراعلیٰ پنجاب اور سی ای او ایجوکیشن سے فوری نوٹس لینے اور ملزم استاد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔
اسکول انتظامیہ نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اس استاد کو نوکری سے برخواست کر دیا ہے۔ تاہم انتظامیہ کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ قانونی کارروائی والدین کا استحقاق ہے، یعنی وہ چاہیں تو متعلقہ استاد کے خلاف پولیس یا دیگر قانونی راستے اختیار کر سکتے ہیں۔ اہلِ علاقہ اور سوشل میڈیا صارفین اس فیصلے کو حتمی انصاف قرار دینے سے قاصر ہیں اور زیادہ سخت مقدمہ بازی اور مناسب قانونی سزا کے منتظر ہیں۔

واقعے نے اسکولوں کی نگرانی، استادوں کی تربیت اور بچوں کے تحفظ کے موجودہ نظام پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم کے مطابق صرف برطرفی کافی نہیں — اساتذہ کی نفسیاتی جانچ، تربیتی ورکشاپس اور کلاس روم مینجمنٹ کی جدید تکنیکوں پر زور دینا ضروری ہے تاکہ جذباتی کنٹرول اور مثبت نظم و ضبط کی مہارتیں استادوں میں پروان چڑھ سکیں۔ مزید براں، والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ غور و فکر کریں اور اسکولوں کی پالیسیوں کے بارے میں باخبر رہیں۔
کیا یہ واقعہ الگ تھلگ ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسکولوں میں جسمانی سزا اور چبھتے ہوئے نظم و ضبط کے واقعات کے رپورٹس وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ مگر اس بار اسکول کے اندر گرفتاری، ویڈیوز یا تصاویر کے وائرل ہونے سے معاملہ عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ایسے حساس معاملات میں فوری اور شفاف تحقیقات عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے لازم ہیں۔
متاثرہ بچے کے لواحقین، اسکول اور مقامی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ والدین کا مطالبہ ہے کہ صرف نوکری سے برخاستگی کافی نہیں بلکہ استاد کے خلاف ایسے اقدامات ہوں جو آئندہ کے لیے سبق آموز ثابت ہوں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس واقعے کی مذمت کریں اور بچوں کے لیے محفوظ تعلیمی ماحول یقینی بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
سماجی کارکنان اور مقامی نمائندے بھی معاملے کی پیروی کر رہے ہیں اور والدین کو قانونی مدد فراہم کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ والدین چاہیں تو بچوں کے تحفظ کے لیے متعلقہ تعلیمی بورڈ یا ہائر اتھارٹی سے شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ اسکولوں میں بچوں کی شکایات درج کرنے کے طریقِ کار کو مضبوط کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے — ایک ایسا طریقہ جس سے بچے خوف کے بغیر اپنی مشکلات بتا سکیں۔
آخرکار، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ تعلیم صرف کتابی علوم نہیں — یہ بچے کی شخصیت، خود اعتمادی اور تحفظ بھی ہے۔ استاد کی طرف سے تشدد کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر سکول، ہر کلاس روم اور ہر استاد کی کارکردگی بچوں کے روشن مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ والدین، اساتذہ اور انتظامیہ — تینوں کو مل کر ایسے ماحول کی تشکیل پر کام کرنا ہوگا جہاں علم کے ساتھ ساتھ بے خوف اور محفوظ نشونما ممکن ہو۔
