ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 جنوری 2025 کو ہونے والی تقریبِ حلف برداری ایک تاریخی موقع تھا، جس میں دنیا بھر سے کئی اہم رہنما، سیاستدان اور نمایاں کاروباری شخصیات شریک ہوئیں۔
تقریب میں نمایاں عالمی شخصیات میں ارجنٹینا کے صدر خاویر، ایکواڈور کے صدر، اور بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر شامل تھے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کے خصوصی مندوب کے طور پر آئے تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی اپنے نمائندے کو اس موقع پر واشنگٹن بھیجا، جبکہ پاکستان کی نمائندگی سفیرِ پاکستان رضوان سعید شیخ نے کی۔
سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج بش، اور بارک اوباما کی شرکت اس بات کی علامت تھی کہ امریکی سیاست میں تسلسل برقرار ہے۔ تقریب میں ایلون مسک، جیف بیزوس، مارک زکربرگ، ٹم کک، اور برنارڈ آرنالٹ جیسی کاروباری شخصیات کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عالمی اقتصادی برادری کے ساتھ مستحکم تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کا آغاز بائیڈن انتظامیہ کے 78 حکم نامے منسوخ کرکے کیا، جن میں ٹک ٹاک پر پابندی بھی شامل تھی۔ انہوں نے کیپیٹل ہل فسادات کے 1500 حامیوں کو معافی دے کر یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے حامیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، جس کی بدولت عوام نے انہیں دوبارہ منتخب کیا۔
ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے لیے فوری طور پر بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کیا، خاص طور پر وہ فیصلے جو معیشت، ماحولیات، اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں تبدیلی کا سبب بنے تھے۔ ان اقدامات کا مقصد امریکی مفادات کا تحفظ تھا، جس نے ٹرمپ کو ایک مضبوط اور بے باک رہنما کے طور پر پیش کیا۔
افغانستان کے حوالے سے، ٹرمپ نے امداد کو اسلحے کی واپسی سے مشروط کیا، جو ان کی “امریکا فرسٹ” پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا یہ سخت موقف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کے لیے، ٹرمپ کی پالیسی بھی سخت ہی رہنے کی توقع ہے۔ پاکستانی حکومت پر دباؤ بڑھنے کا امکان ہے، لیکن ٹرمپ کی ترجیح ہمیشہ امریکی مفادات رہے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی مسترد کر دی تھی، اور اس میں بہتری کی امید کم ہے۔
ٹرمپ کے سخت رویے کے اثرات عالمی اور ملکی دونوں سطح پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کے لیے ان کا بے خوف طرزِ عمل ایک منفرد مثال پیش کرتا ہے۔
عالمی سطح پر، وہ غزہ کے تنازعے کے خاتمے کا کریڈٹ لینے کے بعد یوکرین جنگ کے اختتام کو اپنی ترجیح قرار دے چکے ہیں۔ وہ روس کے صدر سے ملاقات اور جنگ بندی کا منصوبہ پیش کر چکے ہیں، جو ان کی سفارتی حکمت عملی کو نمایاں کرتا ہے۔
آخر میں، یہ واضح ہے کہ ٹرمپ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان کے فیصلے امریکا کو ایک نئی سمت کی طرف لے جا رہے ہیں، اور وقت ہی بتائے گا کہ یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی یا منفی۔
نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ایکسپریس نیوز یا اس کی پالیسی سے اتفاق ضروری نہیں۔